مَحبُوب رَحمتُہً ِلِلعٰالَمیِن سُلطٰانٌ العٰارِفیِن ہیں. ایسے ہی نور علیٰ نور اولیا ءکرام کی شان میں قرآن میں اﷲ تعالیٰ فر ما تا ہے |
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ |
(سورة یونس . پارہ ۱۱. آیت۶۲) |
معنی اَﷲ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم |
اولیا ءعربی لفظ ”و لی“ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں دوست اور اولیا اﷲ سے مراد ہے’ ’ اﷲ کے دوست “ یہاں ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ دوستی تو ہم جنس سے ہوتی ہے اور اﷲ جو نور اور پائیدار معنی ہمیشہ قائم رہنے والا ہے ،” پیکرِ خاک ناپائیدارانسان کا دوست کیونکر ہوا ؟ پائیدار نور سے نا پائیدار انسان کی دوستی کس طرح ممکن ہے؟ اﷲ سے اولیا اﷲ کی دوستی کے اس رمز کو سمجھنے کے لئے قرآن ، احادیث اوربزرگان کے کشف سے اخذ معلومات کی روشنی میں تخلیق کائنات کا تذکرہ مختصراً پیش ہے ۔ از قرآن |
۱)اﷲ کی تعریف ہے |
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ |
(سورةنور. آیت۳۵) |
ترجمہ : اﷲ ٰزمین و آسماں کا نور ہے ! |
۲)ازل میں تخلیقّ کائنات سے پہلے اﷲ کے سوا کوئی شئہ موجود نہ تھی |
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ |
( سورةٰ سجدہ ۔پارہ۲۱۔ آیت۴) |
ترجمہ : اﷲ ہی ہے جس نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ روز میں پیدا کیا۔۔ |
یعنی حق تعالی نے بہ تقاضا ئے ُحب ِ ذاتی، خود اپنے آپ میں تجلی (کنُ ۔ اﷲ کا فعل) فر ماکر کائنات کی تخلیق کی ۔ |
تخلیقِ کائنات میں سب سے اول، اﷲ نے اپنا ایک ریپلی کا یا بہو آئینہ بنام ۔محمدﷺ ّ بنایا ! اس نکتہ کی دلیل میں آپﷺ کی حدیث مبارکہ ہے |
اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللہُ ْنُوٌریِ وَکُل الخَلَآئقَ مِن نُوٌریِ |
( مدارج النبوة. جلد اول. صفحہ ۱۲) |
ترجمہ : اﷲ نے سب سے پہلے میرے نور کی تخلیق کی اور میرے نور سے کل خلق کی |
غر ض اﷲ کے اس” آئینہ نور “کا نام ’ محمد ﷺ ‘ہے۔ کسی انسان یا بشر کا نہیں ! اسی لئے اسم ِمحمد ّ کے آگے صَلَّى ٱللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لکھا جاتا ہے ۔ صلی اﷲ سے مراد ہے اﷲ کا دیدار یا اﷲ کی تصویر! |
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے آ پ نے در یافت فر مایا ” یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں مجھے یہ خبر دیجئے کہ ان سب اشیا سے پہلے اﷲ نے کیا پیدا فر مایا ؟ “۔ آپﷺ نے فر مایا اے جابر ؓ اﷲ تعالیٰ نے تمام چیزوں سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا پھر وہ نور قدرتِ الہیٰ سے جہاں اﷲ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا ۔ اس وقت نہ تو لوح و قلم تھا نہ ذوزخ و جنت ، نہ فرشتے تھے نہ زمین و آسماں۔پھر جب اﷲ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور سے پیدا فر مایا۔ ( از امام بیہقی دلائل نبوت) بڑے آئمہ نے اس حدیث ِ اسناد پر اعتماد کیا ہے۔ جیسے امام ابنِ حجر مکی نے افضل ا لقریٰ میں اور علامہ قاسی نے عطابع ا لمسرات میں اور علامہ زرقانی نے شرح مواحب میں اور علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے مدارج النبوة میں لکھا ہے۔ |
نور محمد ّ ﷺ کے حسن و جمال (صفات ) پر اﷲ خود عاشق ہوا اور ان صفات کے اظہار کے لئے نورِ محمد ﷺ پر تجلیٰ فر مائی تووہ تمام صفات بشکل کائنات ظہور میں آئیں۔( متذکرہ بالا حدیث اس کی دلیل ہے ) ۔یعنی یہ کائنات ، چرند ،پرند، درند، شجر، پہاڑ، دریا تمام، انس و جن، نورِ محمدﷺ میں موجود اﷲ کے اسماءو صفات کا ظہور ہے۔(نورِ محمدّ اﷲ کا آئینہ ہے اس لئے اس میں موجودصفات اﷲ ہی کی صفات ہیں )غرض کل کائنات اسی ایک ذاتِ اﷲ ہی کا ظہور ہے یا کل مخلوقات اﷲ کا مظہر ہیں یا د یگر لفظوں میں اﷲ تمام مخلوقات کے حجاب میں بشانِ منزہ ( پوشید ہ) ہے۔ مثال :۔جس طرح ایک بیج زمین میں چھپ کر جب ایک تناور درخت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے تو اس درخت میں وہ بیج نظر نہیں آتا مگر وہ بیج ہی تو ہے جو درخت کی شکل میں موجود ہے ۔ اسی طرح کائنات کا اصل یا باطن اﷲ ہی ہے ۔ معلوم ہوا کائنات کی ہر مخلوق اﷲ کا مظہر ہے اور ان مخلوقات سے اﷲ کی صفات کا ظہورہو رہا ہے ۔ مثلاً درخت میں آنے والےپھول پتے ، ٹہنیوں اور پھلوں سے اﷲ کی صفتِ تخلیق کا ظہور ہو رہاہے ۔ اسی طرح ہر ذی روح اور انسان کی تمام حرکات و سکنات سے روح یعنی اﷲ کی صفت کا ظہور ہورہا ہے۔ الحاصل اﷲ کائنات میں پوشیدہ ا ور نورِ محمد ﷺ یعنی جمال ِ ا للہ یا صفاتِ اﷲ ظاہر ہے ! دوسرے لفظوں میں اﷲ بشانِ منزہ (پوشیدہ) ہے اور نورِ محمد ﷺ بشانِ مشتبہ ( ظاہر) ہے معلوم ہوا، جہاں اﷲ وہیں نورِ محمد ﷺ ہے یہ رمز ازل سے ہے اورتا ابد رہیگا !! واضح ہوا کہ کائنات کا اول بھی اﷲ ہے اور آخر بھی اﷲ اور ہر شئہ کا باطن ( پوشیدہ)بھی اﷲ اور ظاہر بھی ا للہ ہی ہے یہی بات قرآن سے شاہد ہے کہ |
هُوَ الاَوَّلُ وَالاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىءٍ عَلِيمٌ |
(پارہ ۷۲. رکوع ۷۱ .آیت ۳) |
کائنات کا اول بھی اﷲ ہے اور آخر بھی اﷲ |
دیگر لفظوں میں |
لَامَوٌجُودِ إلّآ اللہ |
معنی اﷲ کے سوا کوئی موجود نہیں |
اگر اﷲ کے سوا کوئی دوسرا وجود نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ نظر آنے والی یہ تمام مخلو ق کیا ہیں ؟ در حقیقت نظر آنے والے گوشت پوست کے یہ اجسام محض ذِل یعنی سایہ ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں !! جسم میں موجود حرکت کرنے والی ہستی (روح ) تو اﷲ ہی صفت کی ہے ! جب یہ نکل جاتی ہے تو جسم بے وجود بےکار ہوجاتا ہے معلوم ہوا روح کے لئے جسم کی حیثیت محض لباس کی سی ہے اور روح کے بغیر جسم لا وجود ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی موجو د نہیں اس ضمن میں حدیث ہے ۔ |
“زمانہ کو برا مت کہو زمانہ اﷲ ہے “ |
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ |
( حوالہ بخاری. جلد دوم. ص ۹۱۳) - (الصیح بخاری شریف ۴۸۲۶۔ کتاب ۶۵۔ حدیث ۳۴۸) |
آپؐ نے فرمایا، ’اﷲ فرماتا ہے کہ اولادِ آدم مجھے اذیت پہنچاتے جب وہ زمانے کو برا کہتے ہیں۔ جبکہ زمانہ میں ہوں۔ میرے ہاتھ میں ہر شے ہے۔ میں ہی دن رات کی گردش کراتا ہوں‘۔ |
اس نکتہ کو فقرا یا تصوف میں ”وحدت الوجود ‘ ‘ کہتے ہیں ! ا جو انسان اس رمز کو سمجھ لیتا ہے کہ ’ہر موجود میں اﷲ ہی کا وجود ہے اور ا للہ کے سوا کوئی موجود نہیں ۔ وہ ” وحدہ لا شریک “کی حقیقت سمجھ لیتا ہے اور وہ شرک سے پاک ہو جاتا ہے اسے قرآن کی با لا آیات هُوَ الاَوَّلُ وَالاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ ۚ ، اور ” اللَّهُ ُالذی خلق السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یعنی اﷲ ہی زمین و آسماں کا نور ہے کی تصدیق ہو جاتی ہے !! |
ازل میں تخلیق آدم کے وقت یہی نورِ محمد ﷺ( جمالِ اﷲ) پتلہ آدم میں پنہاں تھا جسے سجد ہ کرنے کا ملائکہ کو حکم ہوا( ورنہ اﷲ تعالیٰ غیر اﷲ کو سجدہ کرنے کا حکم کبھی نہ دیتا) ۔ اسی نورِ محمدی (علم )کے طفیل حضرت آدمؑ نے ملائکہ کو اسماءو صفات کا علم بتایا اوراشرف المخلوق کاشرف اورخلیفتہ اﷲ کا منصب پایا !!۔ یہ نورِ محمد ﷺ آدم علیہ السلام سے ان کے صاحبزادے شیث علیہ السلام کو تفویض ہوا اور زمانہ در زمانہ ہو تے ہوتے حضرت عبداﷲ سے یہ نورِ محمدی آنحضور ﷺ کو عطا ہوا !! اس ضمن میں حدیث ہے ۔۔ |
بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّى كُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ |
( حدیث بخاری جلد دوم ص۳۴۵) |
ترجمہ :مجھ کو قرن درقرن پیدا کیا یہا ں تک کہ اس زمانہ میں پیدا ہوا ۔۔ |
سرکارِ دوعالم ﷺ۱۹اپریل۵۷۱ءکو اس عالم فانی میں تشر یف لائے ۔ آپ پیدائشی نبی ہیں جس طرح کہ حضرت آدم تھے ۔ شخصی حیثیت سے آنحضور کا نام حضرت ” صلعم “ہے مگر نورانی یا صفاتی حیثیت ( غارِ حرا میں روحانی ارتقا اور نور ﷺمحمد سے منزہ ہونے پر) سے نام محمد ذ ﷺ ہے !! غرض حضور اکرم ﷺ بی بی آمنہ سے بشانِ نبی آنحضرت صلعم پیدا ہوئے اور غارِ حرا سے بعمرِ چالیس سال بشانِ محمد ﷺ ظاہر ہوئے ! |
غارِ حرا میں قوم کی فلاح وبہبود کے غور و فکر اور سوز و تڑپ سے آنحضور صلعمؐ کی ذاتِ مبارکہ یعنی روحِ انورکا عروج اسقدر اعلیٰ شان ہے کہ اس کی نہ کوئی مثال ہے نہ پیمائیش و حد !!آپ ﷺ کی رفعت ِ روحانی کمالِ انتہا کو پہنچ گئی ۔ اس لاثانی ارتقا کا ذکر ممکن نہیں!! بطورِمثال یوں سمجھ لیجئے جس طر ح کانچ پر پارہ چڑھ جانے سے کانچ آئینہ بن جا تا ہے اسی طرح آنحضورکی ذات (روحِ انور) نو ر ِمحمدّﷺ کے کامل ظہور سے مکمل روشن یا دوسرے لفظوں میں خود نورِ محمد ﷺ ہوگئی ہے ! مثال : اگر کوئی ازحدحسین ہو جس کی تعریف پوری طرح محال ہو تو کہتے ہیں کہ وہ تو خود حسن ہے مراد وہ حسینہ اس قدر مکمل حسین ہے کہ وہ خود ہی پورا حسن ہے اسی طرح ذات یعنی ر وحِ سرکارِ دوعالم ر ﷺ ۔۔۔۔ نور محمد ّ سے منزہ و روشن ہونے پر ( بعد بعثت ) خود محمد ّ ﷺ ہے ! اس لئے ذاتِ سرکارِ دوعالم ﷺ اور نورِ محمدﷺ(جمال اﷲ) میں کوئی دوئی نہیں !! |
اوپر متذکرہ حدیث میں سرکارِ دوعالم ﷺ نے واضح فر مایا ہے کہ ” اﷲ نے سب سے پہلے ”میرے نور“کو پیدا کیا اور میرے نور سے کل خلق کو‘ ۔ اس سے معلوم ہو ا ” سرکارِ دوعالم ﷺ کی ذات یعنی روحِ مبارکہ خود نورِ محمد ﷺ ہے !!“اور آنحضور محمدﷺ کی اس خصوصی صفت کا یہ امتیاز ہے کہ ’سدرۃ المنتہیٰ ( مقامِ اﷲ) تک آپﷺ کے سوا کوئی نبی پیغمبر یا جبرئیل امین رسائی نہیں پا سکے! مقامِ اﷲ تک صرف جمالِ اﷲ یعنی نورِ محمد ﷺکی گنجائش ہے ! |
۱)قرآن کی سورة المآ یدة میں اﷲ تعالیٰ فر ماتا ہے |
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ |
(سورة المآیدہ. پارہ۶. آیت۱۵) |
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس ایک نور ( محمدﷺ )آیا اور روشن کتاب ( قرآن شریف) |
اس آیت کریمہ میں اﷲ نے صاف واضح فرمایا ہے کہ سرکارِ دوعالمﷺ کی ذات ِ پاک ’ نور ‘ہے ۔ اور اس مبیّن کھلی دلیل کے بعدآپ ﷺ کی ذات کے نور ہونے سے ترد کرنا گمراہی کی نشانی ہے۔ |
۲) |
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ |
(سورة الانبیا آیت ۱۰۷) |
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے |
از قرآن آپ ﷺ سارے جہاں کے لئے رحمت ہیں ! مگر کوئی انسان (آدم) تمام عالموں کے لئے رحمت کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اﷲ کی جانب سے عطا یہ خطابِ رحمت آنحضور ﷺ کی شانِ لاہوتی پر دلیل ہے ۔مراد جنابِ باری سے محمد ﷺ کے نورِ الہیٰ ہونے کی تصدیق دی جا رہی ہے ۔ |
معلوم ہوا کہ آنحضور ﷺکی ذات( روح ) کا بلوغ( روحانی ارتقائ) اس درجہ اکمل ہے کہ آپ کی ذاتِ عظمیٰ میں نورِ محمد کا کامل ظہور ہے یا دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ کی ذات خود نور محمدؐ یعنی ا للہ کا آئینہ بن گئی ہے ۔ اسی لئے آپ ﷺ کی ذاتِ کریمہ کو اﷲ کا مظہر ( رسول) اور صلی اﷲ معنی اﷲ کا دیدار کہتے ہیں ۔ آپ ﷺ سے قبل کسی نبی پیغمبر میں نور محمدﷺ کا ایسا کامل ظہور نہیں ہوا۔ چونکہ آپ میں کامل ظہور ہے اسی لئے آپ خاتم ا لنبین ہیں اور آپ کا لقب سراجاً منیرا یعنی روشن آفتاب مراد قلب انسانی مکمل منور ہوگیا ۔ |
اس تعلق سے بطور وضاحت ایک مشہور تاریخی واقعہ پیش ہے ‘۔ آنحضور ﷺ نے پردہ سے پہلے یہ وصیت فر مائی تھی کہ آپﷺ کا خرقہ مبارک (پیر ہن) علاقہ قرن کے ایک شخص حضرت اویس قرنیؓ کو پہنچایا جائے ! آپ کی وصیت کے مطابق آپ ﷺ کے پردہ کے بعدحضرت علیؒ اور حضرت عمر ؓآپ ﷺکا خرقہ مبارک لے کر حضرت اویس قرنی کے پاس پہنچے تو حضرت اویس ؓ خرقہ مبارک دیکھ کر اشکبار ہوگئے اور حضرت عمر ؓسے در یافت فر مایا ” کیا آپ نے میرے محمد ﷺکو دیکھا ہے ؟ “ یہ تاریخی سوال بہت اہمیت کا حامل ہے مقامِ غور ہے ایک ایسا شخص جس نے آنحضورﷺ سے زندگی میں کبھی ملاقات نہیں کی اور نہ دیکھا وہ ان جید ّ صحابہ کرام سے جو ہر صبح شام آپ ﷺکی دید سے مشرف ہوتے تھے ، پوچھ رہا ہے کیا آ پ نے میرے محمد ﷺ کو دیکھا ہے ؟“ اویس قرنی کے اس سوال پر حضرت عمر ؓ انگشت بدندان خاموش رہ گئے ! یہا ں محمد ﷺ کودیکھا سے مرادحضرت محمد ﷺکے جسمِ مبارک سے نہیں بلکہ ” حضرت محمد ﷺ کی نورانی ذات ( روحِ انور)کی دید “ سے مراد ہے ۔حضرت اویس قرنی کا یہ سوال مندرجہ بالا نکتہ کی خوددلیل ہے۔ |
نورِ محمد ﷺ اﷲ کا جمال اور ّ حی ا لقیوم(ہمیشہ قائم ر ہنے والا )ہے اس لئے نورمحمدﷺ سے منزہ ّ آنحضور ﷺ کی ذات (روح)بھی حی القیوم یعنی ہمیشہ کے لئے قائم وباقی ہو گئی ہے ! یہی حیاتِ النبی کا راز یا سرِّ (راز ) محمدی ّ ہے ۔البتہ آپﷺ کا جسمِ اطہر خاکی آنکھوں سے در پردہ ہے ۔اس رمز سے عارفین (نوری نظر والے)آگاہ ہیں اور اسی لئے آپ ﷺ کو حیات النبی اور صلی اﷲ علیہ و سلم ( اﷲ کا دیدار )کہتے ہیں !اور سرکارِ دوعالم ﷺ کو حاضر و ناضر جانتے ہیں !! یہی رمز ”کلمہ وحدت ۔۔ | ||||||||||||
لَا إِلٰهَ إِلَّا ٱلله مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱلله | ||||||||||||
کی صورت میں حق سے آ نحضور ﷺکو تحفہ نبوت میں عطا ہوا! | ||||||||||||
لَا إِلٰهَ إِلَّا ٱلله | ||||||||||||
معنی اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد و یکتا ہے | ||||||||||||
اور | ||||||||||||
مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱلله | ||||||||||||
معنی محمد (مراد حضرت محمدسرکارِ دوعالم ﷺ جن کی ذات عین نورِ محمد د ﷺ ہے)اﷲ کے رسول ( مظہر)ہیں۔ | ||||||||||||
آپ ﷺ کے اس درجہ کمال ِ بلوغ یا روحانی رفعت پر اﷲ خود ثنا خواں ہے اور قرآن میں فر ماتا ہے ۔ | ||||||||||||
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ | ||||||||||||
(سورة احزاب. پارہ ۲۲. آیت۵۶) | ||||||||||||
( ترجمہ : اﷲ اور اس کے فرشتے نبی ئکریم ﷺ پر صلواة پڑھتے ہیں لہذا اے ایمان والوں تم بھی صلواة پڑھو اور سلام بھیجو ) |
||||||||||||
سبحان اﷲ ! آپ ﷺ کی کیا عظمت و تکریم ہے !! مع فرشتوں کے ا للہ خود آنحضورﷺ پر صلواة و سلام پڑھتا ہے اور مو منوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بھی صلواة و سلام پڑھیں ۔ اس آیتِ کریمہ سے جنابِ باری میں آنحضور ﷺ کی کبریائی و عظمت کھل کر سامنے آئی۔ ذاتِ سرکارِ دوعالم ﷺ یعنی روحِ مبارکہ جو نورِ محمدﷺ ہے اور عالمِ لاہوت سے ہے اس لئے آنحضور ﷺکی شان لاہوتی ہے اور آ پ ﷺ ہر فعل پر قادر ہیں ۔ مگر وجودی اعتبار سے آپ ﷺچونکہ آ دم ہیں اس لئے لاہوتی شان کے ساتھ آپ ﷺ میں ناسوتی شان بھی ہے یعنی عالمِ لاہوت ( عالم وحدت )میں آپﷺ احد ہیں اور عالمِ ناسوت ( عالمِ آب و گِل۔ دنیا) میں احمد ہیں ۔ | ||||||||||||
|
||||||||||||
نورِ محمد ّ سے تمام خلق کی تخلیق ہوئی ہے اور نورِ محمد آپﷺ کی ذات پاک (روح انور) ہے اس لئے یقیناً تمام کائنات کا نور (علم) آپ ﷺ کی ذات میں سمویا ہے یا دوسرے لفظوں میں آپ پر تمام عالم ظاہر ہے کوئی شئہ پوشیدہ نہیں! آپ ﷺ ہر فعل پر قادر ہیں اور اﷲ تعالیٰ خود آپ ﷺ کی ذات ِ مبارک پر صلواة و سلام بھیجتا ہے ! ’ مرحبا ! قربان جائیے آپ کی ذاتِ پاک پر !ایسی اکمل نورانیت اور نورُُ علیٰ نور معنی تمام علموں ( نور ) کا مخزن ہوتے ہوئے بھی آ پﷺ نے اپنی حقیقت کو ” ماعرفنا “ ( معنی میں کچھ نہیں یا کچھ علم نہیں رکھتا )کے پردہ میں چھپا ئے رکھا ہے اور آپ ﷺ کی شانِ لاہوتی سے لاعلم حضرات قرآن کی مندرجہ ذ یل آیت ۔ |
قُلْ إِنَّمَآأَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ ۖ |
(سورة الکھف. پارہ۱۶. آیتہ۱۱) |
ترجمہ: فرماو ظاہری صورت ِ بشری میں تم جیسا ہوں ، مجھے وحی آتی ہے |
پڑ ھتے ہیں تو اِس آیت کا دوسرا اہم حصہ ”مجھے وحی آتی ہے “ جو آپ ﷺ کو دیگر انسانوں سے ممتازکرتا ہے غصب کر کے کہہ دیتے ہیں ” آپ ﷺ تو ہمارے جیسے بشر تھے “۔ ہاں ۱ بےشک وجودی اعتبار سے آپﷺ بھی آدم ہیں اور آپ ﷺ پر بھی بشری اعراض وامراض طاری ہوئے ہیں اور یہ ضروری ہے کہ کسی قوم کو ہدایت دینے والا بھی اس قوم کے حلیہ بشرے کا ہو اس لئے لازم تھا کہ آپ ﷺ بھی بشری روپ میں تشریف لاتے مگر ذاتی (روحانی) اعتبار سے یقینا آپ نور ہیں اور آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہیں (جس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے)آپ کو غیب کا علم حاصل تھا آپ پر وحی آتی تھی !! |
کیا ہمیں بھی یہ نعمتیں میسر ہیں ؟یا ہوسکتیں ہیں ؟ |
یقیناً اس کا جواب نفی ہوگا کیونکہ حقیقت وروح کے اعتبار سے تمام انبیا ءاوصافِ بشر سے اعلیٰ ہیں !اور حضور اکرم ﷺ تو افضل الانبیاءہیں ۔نکتہ دیگر ہماری ذات (روح) تو امرِ ربی ّ یعنی اﷲ کی صفت ہے اورآپ ﷺکی ذات (روح) خود نورِ محمد ّ ﷺیعنی جمالِ الہی ہے لہذا حضور اکرم ﷺ کو اپنے جیسا انسان سمجھنا ایسی گمراہی و ظلمت ہے گویا آفتاب کے نصف النہار پر ہوتے ہوئے چراغ کی ضرورت ہو۱! ۔ |
نورِ محمد سے آنحضور ﷺکی ذات نورُ علیٰ نو ر منور روشن ہے اس لئے آپ کا لقب سراجاً منیرا یعنی روشن آفتاب ہے ۔ آفتاب سے دنیا روشن ہے اس طرح آپ کے قلب کے نورِ نبوت سے دوسرے قلوب منور ، روشن ہورہے ہیں اور تمام دنیا روشن ہورہی ہے ۔ آپ نے اپنے علم ( مراد نورِ محمد ﷺ) کی امانت کا اہل حضرت علیﷻ کو پایا اس لئے سب سے اول ’ قلبِ حضرت ِ علی کو نور(علم ) عطا کیا ،قلب ِ علیﷻکو منور کیا ۔ اس تعلق سے کئی احادیث ہیں۔ مثلاً |
اَنَا مدِینَۃُ العِلمِ وَعَلِیّ بَابُھَا |
میں (مراد آپ ﷺ) علم کا شہر ہوں اور علی اس کا در وازہ ہیں۔ |
مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ، فَهَذَآ ٌعَلِىٌّ مَوْلاهُ |
جس کا میں (مراد آپ ﷺ) مولا۔ اس کے علی مولا (دوست) |
آنحضور ﷺسے حضرت علی اور حضرت علی سے اولیا کرام بطریق ”ولایت“ طالبان ِ اﷲ کے قلب منور کر کے جہاں کو روشن کر رہے ہیں اور ہدایت کا کام جاری و ساری ہے اور تا ابد ہوتا رہیگا اسی لئے آٓپ ﷺ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ |
قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے ہدایت فر مائی ہے |
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى |
(سورة الاعلیٰ ۔ پارہ۳۰۔ آیت۱۴) |
ترجمہ : بے شک مراد کو پہنچا (معنی کامیاب ہوا) جو ستھرا یعنی صاف ہوا ۔ |
مر اد کو پہنچنے سے مراد ہے مقصد ِ وجود میں کامیاب ہونا یعنی قرب ِ الہی پانا اور وہی مراد کو پہنچتا ہے جو ستھرا معنی صاف ہو جاتا ہے۔ یہاں صاف ہونے سے مراد ہے قلب کا صاف ہونا یعنی قلب کا نفس کی کدورتوں مثلاًً حرص، حسد، نفرت ، غصہ ،تکبر وغیرہ سے پاک ہونا۔اسی بات کو قرآن نے تزکیٰ (ستھرا) کہا ہے ۔ نفس کی یہ کدورتیں مرشدکے فیض (نور)سے بہ آسانی ختم ہوتی ہیں !اس لئے طالب کو کسی کامل شیخ سے رجوع ہو کر ان کا مکمل مطیع ہو نا پڑتا ہے کیونکہ راہِ حق میں” اطاعت اور ادب“ ہی سب کچھ ہے ۔ |
جب طالب مرشد کامکمل مطیع ہو کر عبادات و مجاہدات سے اپنے نفس کی صفائی کر نے میں کامیاب ہو جا تا ہے تو ا س پر یہ بھید کھلتا ہے کہ نفس ( میں)کی حقیقت کچھ نہیں !اسے ’ ان تموتو قبل ا لموت ‘ یا موت سے پہلے موت پانا یا فنا فی اﷲ یعنی اﷲ میں فنا ہونابھی کہتے ہیں ایسے طالب کے قلب کو مرشدجب نورِ محمدِﷺ عطا کر تے ہیں تو اس کی روح بھی نورِ محمد ﷺ سے منور ہوجاتی ہے اور اس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوجاتا ہے ۔ ” نورِ محمد حی ا لقیوم ہے “ اسلئے نورمحمدﷺ سے منور اس طا لب کی ذات بھی حی ا لقیوم معنی ہمیشہ کے لئے قائم اور باقی ہو جاتی ہے ۔ اسے بقا باﷲ ” یعنی اﷲ کے نور سے باقی ہونا “کہتے ہیں ۔ٍ ا سی کو قرآن نے ” مراد کو پہنچنا “ کہا ہے۔ نورِ محمد ﷺ ( یعنی صفاتِ الہیہ) سے منور ہوجانے پر اِس طالب کی ذ ات میں بھی صفاتِ الہیہ پیدا ہوجاتی ہیں ۔ ایسی منور روح ،عام روحوں کی طرح جسم میں قید نہیں رہتی بلکہ ایک آن میں جسم سے آزاد ہوکر زمانہ پر سلطانی بھی کر سکتی ہے۔ ان بندوںکا ہر کام نفس یعنی حواس ( حواسِ خمسہ) کی بجائے نور حق سے عمل پذیر ہوتا ہے اس مضمون پر یہ حدیث دلیل ہے۔ |
فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ، كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي |
( مشکواة شریف ۔ص۱۹۷) اور حدیث ۲۵۔ "۴۰ حدیثِ قدصی" |
ترجمہ : اﷲ تعالیٰ فر ما تا ہے، نیکیوں کے طفیل بندہ جب مقام رفیع ( اﷲ کے قریب) تک پہنچ جاتا ہے تو میں اس کی آنکھ
ہوجاتا ہوں جس سے وور و نزدیک کی چیز دیکھ لیتا ہے ، میں ہی اس کے کان ہو جا تا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ میں ہی اس
کے ہاتھ پاؤں ہو جا تا ہوں وغیرہ ! |
اورجس طرح اﷲ علیٰ کل شیِ شھید ہے اس طرح بندہ بھی یکجا بیٹھے اﷲ کے نور سے سارے عالم کو دیکھ سکتا ہے اس مضمون پر یہ حدیث دلیل ہے۔۔ |
الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ |
( ترمذی حدیث نمبر۳۴) |
مومن اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے |
غرض طالب کی ذات یعنی روح کا نورِ محمدﷺ ( جمالِ اﷲ)سے منور ہوجانے کو اﷲ کی دوستی یا ولایت کہتے ہیں اور جس بندے کی روح، اﷲ کے نور سے منور ہوجاتی ہے اسے ’اﷲ کا دوست یا ولی ‘کہتے ہیں اسی قلبی نور کے طفیل عارف اپنے دل ہی میں تمام کائنات کا مشاہدہ کر لیتا ہے ۔مثلاً علی مولاؑ کے تعلق سے مشہور واقعہ ہے کہ |
علی مولاؑ، جنگِ خندق میں فوجِ کفّار کے سردار عمر بِن عبد الوُد کے مقابِل تھے۔ جب مولا علی نے اُس پر قابو پا کر اُسکا نیزہ چھین لیا اور بجائے اُسے مارنے کے نیزے کو ہوا میں ایک طرف اُچھال دیا۔ تو عمر بِن عبد الوُد چِللا اٹھا اور اسنے کہا ۔ ’یا علی، جب نیزا پا لیا تھا تب مجھ پر وار کر دیتے ۔ مگر آپ نے اسے ہوا میں پھینک کر گُم کیوں کر دیا؟‘۔ واضح رہے کہ وہ نیزا عمر بِن عبد الوُد کی خاندانی شجاعت کا نیزا تھا۔ اُس کے لئے بہادری کا ایک تَمغہ تھا، اس لئے وہ نیزا اس کو بہت عزیز تھا۔ عمر کی دلی کیفیت دیکھ کر علی مولا کو حقیقت سے پردا اٹھانا پڑا۔ اور آپ نے فرمایا۔’میں نے جس وقت نیزا اٹھایا ، اسی وقت سمندر میں ایک مچھلی نے مجھے پکارا جسے ایک مگر مچھ نگلنے جا رہا تھا۔’یا علی مدد!‘ ۔ اور بس اسی کی مدد کے لئے میں نے وہ نیزا اس مگر مچھ کی طرف پھینکا اور اس مچھلی کی مدد کی‘۔ |
علی مولا کا عین جنگ میں یہ غائبانہ تصّرف بتاتا ہے کہ آپ کِسقدر قوتِ کامِلا کا مظہر رہے ہیں۔یہاں کچھ سوال دماغ کو جھنجھلاتے ہیں۔ آخر ایک مچھلی کی آواز علی مولاؑ کیسے سُن سکتے ہیں؟ مچھلی جو کہ سمندر میں ہے اور وہ سمندر مدینے سے اتنی دور ہے، تو کون سی ایسی طاقت تھی جس نے اُس مچھلی کی آواز کو علی مولاؑ تک پہنچایا؟ |
یہاں علی مولاؑ کی شخصیت اہم ہے، عین جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے ایک مچھلی کی مدد کی۔ آپؑ کا یہ غائبانہ تصّرف ظاہر کرتا ہے کے کوئی ایسی طاقت ہے جو ایسے کمالات کے لئے ذمہدار ہے۔ بلاشبہ! یہ نورِ مصطفےٰ آقا سرکارِ دوعالم ﷺ ہے۔ عالم ِ اسباب میں ایسے محیرالعقل واقعات کا صدور یا واقع ہوجانا بجز نورکیونکر ممکن ہے ؟ ایسے کڑوروں واقعات موجود ہیں جہاں آپ ﷺ کے غلاموں سے ایسے کمالات کا صدور ہواہے جو ان میں صفات ِ تنزیہی کے ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مگر تاسف کا مقام ہے ان تمام مثبت دلائل کے باوجود کہ امت کے بیشتر طبقوںکوآپ کی ذات پاک کے نور ہونے پر یقین نہیں ہے! |
آنحضور ﷺ نے اولیا کرام کی تکریم میں یہ ارشاد فر مایا ہے۔ |
اِنَّ اَوُلِیَآ ئِیٌ تَحُتَ قَبَآئِیٌ لاَ یَعٌرِ فُھُم غَیِرِیٌ۔ |
(ماخوذاز اسرارِ حقیقی مصنف خواجہ معین الدین چشتی اجمیری غریب نواز ) |
تر جمہ : میرے اولیاء میری قبا کے نیچے ہیں اور ان کے مرتبہ میں ہی جانتا ہوں اور کوئی نہیں جان سکتا۔ |
اﷲ کے یہ مقرب بندے ہمارے سامنے بشکلِ انساں ضرور ہوتے ہیں مگر روحانی اعتبار سے مظہرِ نورِ محمد ﷺ ہوتے ہیں!! ظاہر میں بندہ اور باطن میں واصلِ اﷲ ہوتے ہیں۔ان کی ذات (روح) نورِ محمد ﷺ میں سموئی ہوتی ہے اور تمام کمالات و کرامات کا صدور بھی ان کی ذات میں موجود نورِ محمدﷺ یعنی نورِ حق ہی سے ہوتا ہے مگر افسوس ہماری خاکی آنکھیں اﷲ والوں کی ذات میں موجود اس نور کا مشاہدہ نہیں کر پاتی ہیں ۔ مثلاً جس طرح کسی برقی پنکھے یا بلب میں موجود بجلی کو ہم نہیں دیکھ پاتے مگر پنکھے کا گھومنا یا بلب کا روشن ہونا ان اشیا ءمیں بجلی کا پتہ دیتا ہے اسی طرح اﷲ والوں سے کمالات یا کرامت کا صدور ان کےقلب میں نورمحمدﷺ ( جمالِ اﷲ ۔ صفاتِ خداوند ) کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے اس لئے اولیاکرام سے رجوع ہونا یا دعا کرنا شرک یا غیر اﷲ سے مدد لینا نہیں ہے بلکہ یہ عین نورِ حق سے مدد مانگنا ہے جو بالکل درست ہے اس میں کسی شک و تردد کا شائبہ تک نہیں ہوسکتا ! |
اولیا کرام کی ذات ( روح ) نور محمدﷺ سے منور ہونے پر ہمیشہ کے لئے باقی( بقا باﷲ) جاوید ہوجاتی ہے اس لئے اولیاکرام کے پردہ کے بعد بھی ان کی قبور سے نور محمد ﷺ کے طفیل کرامات و کمالات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ لہذا اولیائکرام کے قبور پر مناجات در حقیقت عین نورِ محمد ﷺ یا اﷲ کے حضور ہی ہوتی ہے ۔ جو لوگ ان حقائق سے لا علم ہیں وہ نادانی سے اسے شرک ،غیر اﷲ سے مانگنا اور بدعت کہتے ہیں۔مزارات پرحاضر ہونے والے اکثر حضرات بھی اس حقیقت یا بھید سے ناواقف ہوتے ہیں ۔اس لئے صحیح علم حاصل کرنا اور اسے صحیح طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ازل میں اﷲ نے ملائکہ کو حضرت آدم کے سجدہ جو حکم دیا تھا وہ در حقیقت آدم میں پنہاں نورِ محمد ﷺ ہی کے لئے تھا ( ورنہ اﷲ ملائکہ کو غیر ا للہ کے سجدہ کا حکم کبھی نہ دیتا ) اور سرکارِ دوعالم ﷺ کی ذات میں نورِ محمدﷺ کے کامل ظہور پر مومنین کو اسی نور محمد ﷺ کی تعظیم تکریم کاحکم دیا ہے ( ان اﷲ ملائکتہ یصلونً علی النبی۔۔از قرآن سورة احزاب) غرض تمام تعظیم اورسجدہ و سجود ، نورِ محمدﷺ اﷲ کے جمال کے لئے ہے ۔ |
بطریق ولایت ( اوپر لکھا جا چکا ہے )آنحضور ﷺ سے ، اولیائکرام میں نور محمد ﷺ کا ظہور ہوتا ہے اور اولیا کرام کے پردے میں نور محمد ﷺ ہی کی تعظیم ہوتی ہے ۔ جس طرح کعبہ کے رخ سجدہ کرنے سے سجدہ، کعبہ یا سامنے موجود نمازی کے پیروں، دیوار، چھڑی ،ٹوپی کسی چیز کو نہ پہنچ کر سیدھا اﷲ تک پہنچ جاتا ہے اسی طرح اولیا کرام بمثل کعبہ محض ایک چلمن (پردہ)کی طرح ہیں ان کے حجاب میں قدم بوسی وسجدہ ان کے قلب میں موجود نور محمددﷺ کو پہنچتا ہے ۔ یہی حق اوریہی سنتِ ملائکہ بھی ہے ۔یہاں شرک کاکوئی معاملہ نہیں ! |
نوٹ : انسان کے لئے زندگی میں معرفتِ حق جسے عام فہم زبان میں” اﷲ کا قرب “ کہتے ہیں ، پانا بہت ضروری ہے۔ انسان کی پیدائش کا یہی مقصدِ ہے۔مگر کسی مرشد ِ کامل سے ارادت کے بغیر قرب الہی پانا بہت مشکل ہے اور تاسفکی بات ہے کہ صحیح مرشد تک رسا ئی آسان مرحلہ نہیں ۔کیونکہ دورِ حاضرہ میں معرفت حق سے نا آشنا حضرات بھی اس کوچہ میں اپنی مسندیں سجائے نظر آتے ہیں۔ ِاس لئے مرشد کی صحیح پہچان حاصل کرنے کے بعدہی بیعت ہونا چاہئے ۔ ولیءکامل مرشد طالب کو منزلِ مقصود تک بہ آسانی پہنچا تے ہیں۔ بغیر سلسلہ اور خود مختاری پیروں سے احتیاط برتنا چاہئے ۔ا ن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ |
۱۲ربیع الاول۔ عیدِ میلاد کا دن بہت ہی عظیم دن ہے کیونکہ یہ رحمۃ اللعالمین کی دنیا میں تشریف آوری یعنی ظہور کا دن ہے۔ اس دن کی ہر گھڑی دُعاوں اور قبولیت کی ہے۔ اسلئے اس دن کی عظمت کے اظہار کے لئے میلاد کا جشن منانا چاہئے۔ آپ سب جاتنے ہیں کہ دنیا کی ہر حکومت اپنے قیام کا دن مناتی ہے، ہر قوم اپنے لیڈر اور ہر اُمّت اپنے نبی پیغمبر کی پیدائش کا دن مناتی ہے۔اور سبھی مل کر لیڈر ، نبی پیغمبر کے کارناموں کو سراہتے ہیں۔ ان کے پیغامات کو یاد کرتے ہیں اور قوم کی بھلائی کے لئے غور و فکر کرتے ہیں۔اس سے انسانیت کا بھلا ہوتا ہے۔ مگر افوس کے ہماری قوم میں چند فرقے ایسے بھی موجود ہیں جو اپنے نبی سرکارِ دو عالم ﷺ کی ولادت ، یعنی ظہور کا دن منانے کو بدعت و شرک سمجھتے ہیں۔ ہم قرآنِ کریم کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ نبی ﷺ کا میلاد منانا درست ہے کہ نہیں ؟ اس سلسلہ میں ہم میلاد کے مخالفین کے اعتراضات ۔ مثلاً شرک، بدت، غیر شرعی عمل کس کو کہتے ہیں، سمجھ لیں گے۔ |
بدت: بدت اُس فعل یا کام کو کہتے ہیں جو حضور ﷺ کے پردے کے بعد دین میں شامل کیا گیاہو اور جس سے انسانیت کے نقصان کا خدشہ ہو۔ غور کرنے کی بات ہے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں ہماری روز مرہ کی زندگی میں انگنت کام بدعات ہی ہیں۔مثلاً عالیشان گھروں میں رہنا، عمدہ ترین کپڑے پہننا ، لذیذ کھانے کھانا۔ شاندار کاروں میں گھومنا۔ زر پرستی کرنا۔ سیاسی شخصیات کا برتھ ڈے منانا۔ دعوت کا نام پر غیر ضروری پارٹیاں اُڑانا ، شادی کی سالگرہ منانا ۔ شادیوں میں بڑے پیمانے پر جہیزوں کا لین دین۔ وغیرہ،وغیرہ۔ یہ سب کام کیا سنت کے مطابق ہیں؟ نہیں نا۔ تو پھر یہ سب بھی تو بدعات ہی ہیں۔ غرض ہمہ تن یعنی سر سے لے کر پاوں تک بدعات میں پڑے ہونے کے باوجود مخالفین میلاد کو اپنی بدعات نظر نہیں آتیں۔البتہ لوگوں کو میلاد النبی ﷺ منانے میں بدعت نظر آتا ہے۔ بقول ۔ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھ لیتے ہیں۔ عیدِمیلاد النبی کے جشن و جلوس میں قوم کی بھلائی ہے۔ناواقف اور لا علم عوام اپنے بڑے بزرگوں اور اسلام کی تاریخ سے واقف ہو جاتے ہیں۔حضور ﷺ کے اخلاص و عادات اور آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کا اعادہ ہوتا ہے۔ایسی مبارک اور مفید محفلوں کو اگر کوئی بدعت سمجھتا ہےتو بیشک یہ بدعت بھی مبارک و مباح ہے۔ اور کوئی مائی کا لال ان محفلوں کو انسانیت کے لئے با عث نقصان ثابت نہیں کر سکتا۔ مخالفینِ میلاد اور تمام مسلمین کی اطلاع کے لئے یہاں ایک حدیث عرض ہے۔ یہ حدیث ابن ابی شیبہؓ نے کتبِ احادیث احمد بن جنبلؓ ، مسلم شریف ، ترمذی ، ابن ماجہ، بیہقی شریف سے نقل کی ہے، کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابو سعیدؓ دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے حضورﷺ سے سنا ہےکہ’’جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہوجاتی ہے، فرشتے اس جماعت کو سب طرف سے گھیر لیتے ہیں اور اللہ کی رحمت بھی ان کو گھیر لیتی ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا ذکر اللہ کی رحمت کے نزول کا باعث ہوتا ہے تو کیا اللہ کے حبیب ﷺکے ذکر پررحمت کا نزول نہ ہوگا؟ بیشک ہوگا! اسی لئے پہلے کے ادوار میں لوگ اپنے گھروں میں اللہ و رسولﷺ کے ذکر کی محفلوں کا انعقاد کرتے تھے۔ |
شرک: میلاد کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ میلاد منانا شرک ہے۔ اور شرک کے معنی ہیں کسی مخلوق کو اللہ کے برابر سمجھنا ۔ اللہ کے ساتھ شریک کرنا۔ |
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ |
ترجمہ: نہ میں پیدا ہوا ہوں اور نہ کسی نے جنا ہے۔ |
غرض جب اللہ کا جنم ہی نہیں ہے تو پھر کوئی کس طرح اللہ کی پیدائش کا دن یا میلاد منا سکتا ہے۔ کیا کسی اہلِ حدیث یا دیوبندی نے اللہ کی میلاد منائی ہے؟ نہیں نا! تو پھر حضور ﷺ کی میلاد منانا شرک کہاں سے ہوگیا؟ ہم تو اللہ کے محبوب ﷺ کا جشن میلاد منا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ، اس نے عیدِ میلاد کے دن ہمیں شافع محشر اور اس کی ذات کی معرفت عطا کرنے والا عطا کیا۔ اس میں شرک کی بات کہاں ہے۔بس جو منہ میں آیا کہہ دیا اور معصوم و لا علم عوام کو بھی شرک اور بدعت کا خوف دلا کر فیض اٹھانے اور خود ان کی اصلاح کرنے کا موقعہ پانے سے بھی محروم کر دیا۔ |
غیر شرعی: مخالفین میلاد کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ میلاد منانا غیر شرعی عمل ہے۔ لہٰذا پہلے ہم جانیں گے کہ شرعی کسے کہتے ہیں۔ |
اسلامی قانون کو شرع کہتے ہیں۔ اور شرع یا اسلامی قانون کو یہ طاقت حاصل ہے کہ جو کام یا فعل انسانیت کے لئے باعثِ نقصان ہو اس پر شرع پابندی عائد کرسکتا ہے۔ مثلاً چوری کرنا، زنا کرنا، قتل کرنا وغیرہ۔ ان کاموں سے انسانیت کا نقصان ہوتا ہے اس لئے ان کاموں پر شرع کی پابندی یا ممانعت ہے اور ان کاموں کو غیر شرعی یا غیر قانونی بھی کہتے ہیں۔ اس تعلق سے مزے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی کتابوں میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کا میلاد منانا غیر شرعی عمل ہے، اس لئے میلاد النبی نہ منایا جائے۔ اب جبکہ میلاد نہیں منانا ایسا کوئی شرعی جواز ہی نہیں ہے تو پھر مخالفین میلاد نے کیسے نافز کر دیا کہ میلاد منانا غیر شرعی ہے؟ معلوم ہوا کہ آگے دیکھا نہ پیچھے۔ بس جو بات من میں آئی کہہ دی۔ خیر! آپ نے دیکھا کہ ہم نے مخالفین میلاد کے تینوں اعتراضات کا مدلل جواب دے کر ان اعتراضات کو غلط اور باطل ثابت کردیا ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اللہ کے نزدیک آنحضورﷺ کا میلاد منانا نا جائز ہے یا عین حق و مباح! قرآن کریم کے سورۃ مریم، آیت نمبر ۱۵ میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش پر اللہ تعالی فرماتا ہے: |
وَسَلَـٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ۔۔۔ |
ترجمہ: اور سلامتی ہے اُن پر جس دن وہ پیدا ہوئےاور جس دن پردہ ہوئے۔۔۔ |
قرآن کریم کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن نبی پیدا ہوتے ہیں اس دن پر اللہ کا سلام آتا ہے، الہٰذا نبی کی پیدائش کا دن اللہ کے نزدیک بڑی عظمت و برکت والا ہے، یہ تزکرہ تو حضرت عیسیٰؑ مسیح اللہ کا ہے، جبکہ ہمارے پیارے نبی سردارِ الانبیا، امام المرسلین، تاجدارِ کونین، سرکارِ دو عالم ﷺ ہیں، تو آپ کی ولادت کے دن کی عظمت و فضیلت کا کیا ذکر ہو! قرآن کی سورۃ الانبیا، آیت نمبر 107 میں اللہ خود فرماتا ہے: |
وَمَآ أَرْسَلْنَـٰكَ إِلَّا رَحْمَةًۭ لِّلْعَـٰلَمِينَ |
ترجمہ: اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام عالموں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ |
قرآن کریم میں سورۃ النسا، آیت نمبر 113 میں اللہ فرماتا ہے: |
’’وَكَانَ فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًۭا ‘‘ |
ترجمہ: آپ ﷺ پر اللہ کا عظیم فضل ہے۔ |
قرآن کریم میں سورۃ الاسرا ، آیت نمبر 87 میں اللہ فرماتا ہے: |
’’إِنَّ فَضْلَهُۥ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًۭا ‘‘ |
ترجمہ: آپ ﷺ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ |
مقامِ غور ہیں وہ ہستی! جن پر اللہ کا بڑا عظیم فضل ہے، جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہیں، ایسی ہستی کا دنیا میں ظہور، انسانیت پر اللہ کا فضل و احسان ہی ہے! بیشک بہت بڑا احسان و کرم ہے، اور اسی لئے قرآن کریم میں سورۃ یونس، آیت نمبر 58 میں کہتا ہے: |
قُلْ بِفَضْلِ ٱللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِٖ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا۟ هُوَ خَيْرٌۭ مِّمَّا يَجْمَعُونَ |
ترجمہ: میرے حبیب آپ فرما دیجئےکہ، جب اﷲ کا فضل ورحمت ملے تو خوشیاں مناو |
لہذٰا تمام مومنین کو احکامِ الٰہی کے مطابق اس دن ضرور جشن و خوشیاں منانی چاہئے۔ اس میں کوئی قیل وقال نہیں! گھروں، کارخانوں، دفتروں، مدرسوں، مساجد، ہر جا چراغاں کرنا چاہئے۔ حضورﷺکے اسوہ کو عام کرنے کے لئے، جگہ جگہ تقریری جلسوں کا انعقادہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں بچوّں کی ہمت و حوصلہ افزائی کے لئے انعامات و مٹھائیاں تقسیم ہونی چاہئے۔غرض ہر طرف مرحبا صل علیٰ۔۔ یا نبی سلام علیک۔۔۔ کی صدائیں بلند ہونی چاہئے۔ |
اوپر کے مضمون سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ میلاد النبیﷺ منانے کے مخالفین، دراصل آنحضورﷺ کی ذاتِ اقدس و حقیقت سے نا واقف لوگ ہیں۔ اور یہ حضرات بس ایک اللہ کی تعریف و توقیر کے علاوہ۔۔ احکاماتِ الٰہیہ کے مطابق کوئی دوسری سچی و صحیح بات سننا یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم آنحضورﷺ کی ذات مبارکہ روحِ انوار اور عام انسانوں کے ارواحوں میں جو بنیادی فرق ہے اس کا ذکر کرینگے۔ آ پ ﷺ نے فرمایا ہے: |
اَنَا مِنْ نُورِْ اﷲ ِ وَکُلُّ ْالخَلَائِقَ مِنَ ْالنُورِ |
مشکوٰۃ حقانیہ شریف ۔ صفحہ 513 |
ترجمہ: اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کی تخلیق کی اور میرے نور سے تمام دنیا کو بنایا |
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدیﷺ خلق کیا اور یہی نورِ محمدؐ سرورِ کائنات ﷺ کی ذات یعنی روحِ مبارکہ ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایاہے۔ |
مَنْ رَآنِي فَقَدْ رَأَى الْحَقَّ |
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا۔ |
بخاری شریف جلد اول صفحہ - Book 91, Hadith 16 - 21 |
آپ ﷺ کا قول ہےکہ، جس نے مجھے دیکھا ۔ دیکھا سے مراد یہ ہے کہ ، آپؐ کی نورانی ذات یعنی، نورِمحمدؐ کو جس نور والی آنکھ نے دیکھا ، اس نے اللہ کو دیکھا۔ کیونکہ نور کو نور والی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے۔ بقول: |
آنکھ والاتیرے جوبن کا تماشہ دیکھے دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے |
غرض جن صحابہ اکرام نے آپﷺ کی ذات میں اللہ کے نور، ’’نورِ محمدؐ ‘‘ کو دیکھا ان کی صلوٰۃ قائم ہوگئی کیونکہ صلوٰۃ کے معنی ہیں دیدار یا دیکھنا یا رابطہ کرنا۔ قرآن میں بھی صلوٰۃ قائم کرنے کا ہی حکم ہے۔غرض وہ صحابہ جن کو نورِ محمدﷺ کی دید میّسر آئی وہ آپ ﷺ کی چوکھٹ پر غلام بن کر بیٹھ گئے۔ اُن کے پیشوا علی مولاؑ ہیں۔ اُن ہی حضرات سے صوفیا کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور یہیں سے طریقت کا اجرا بھی ہوااور اولیا اکرام ظاہر ہوئے۔ قصہ مختصر ! حضورﷺ کی نورانی کیفیت کا مشاہدہ پانے والےصحابہ، راہِ طریقت سے جڑ گئے۔ اور جو حضرات حضورﷺ کی نورانی کیفیت کی دید سے محروم رہے وہ آپؐ کی تعلیمات، یعنی شریعت پر عمل پیرا ہوئے۔ شریعت آدمی کو مہذّب بنا سکتی ہے اور اس سے اچھے سماج کی تشکیل تو ہوسکتی ہے مگر، شریعت بندے کو اللہ سے نہیں ملا سکتی۔اس کے لئے واہِ طریقت، اولیا کرام کا راستہ ضروری ہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ دین اسلام کے بیشتر طبقات، روحانیت نور کو مانتے نہیں، اس لئے اس کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اسی کا یہ نتیجہ ہےکہ ہمارا حال اُس بچہ کی طرح ہے جو پھل کا مغز چھوڑ کر، چھلکے کو لئے گھومتا پھرتا ہے۔ اسلام میں مختلف تفرقات ہونے کے سبب بھی یہی خامیاں ہے۔ |
اس مضمون سے قارئین کو اچھی طرح یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ، اسلام کی تاریخ پر ظلمت کے کئی پردے مڑے ہیں۔ خود آپ ﷺ کی اُمت کا بڑا حصہ اپنے قائد ، سردارِ حاکم یعنی آپ ﷺ کی حقیقت سے قطعی لا علم و ناواقف ہے۔ اور اسی لاعلمی کی وجہ سے آپ ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلام کرتے ہیں۔ جبکہ خود اللہ نے قرآن کریم میں بے شمار دلیلیں آپ ﷺ کی شان و امتیاز میں پیش کی ہیں۔ مولا ہمیں اپنے محبوب سرکارِ دوعالم ﷺ کی محبت اور دین کع صحیح حقائق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! |
اختتامِ کلام پر اپنے آقا کے حضور ہم اپنی اور تمام اّمت کی طرف سے عاجزانہ التجا کرتے ہیں کہ مولا، ان مبارک و نادر گھڑیوں کے طفیل ہماری کوتاہیوں، غلطیوں، اور نادانیوں کو بخش دیں۔ اور ہمارے دلوں کو اپنی محبت کے شرر سے تابندہ فرما دیں۔ تاکہ اس میکدہ سے ہر سو یہ صدا بلند ہو! |
صدا اسلام و درود کی آتی رہے گی نبی ﷺ کا میلاد ہوتا رہے گا خدا اہلِ دل کو آباد رکھے میلاد کا جشن ہوتا رہے گا |
مرحبا صلِ علیٰ۔ مرحبا صلِ علیٰ۔ یا نبی سلام علیک |
تصوف کے نظریہ کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی عناصر/ اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام عناصر اور اصطلاحات کو ایک الگ صفحہ پر سادہ سوال اور جواب کی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ بنیادِ تصوف کے صفحہ پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔. |