۱۹۸۱ کی بات ہے۔ آپ اس وقت گورکھپور میں تھے۔ ماہ جون شروع ہو چکا تھا مگر بارش کا ٹھکانہ نہیں تھا ۔چلچلاتی دھوپ سے انسان ، چرند ،پرند، درند سبھی تڑپ رہے تھے۔ بارش کے لئے چہار سوُ دعائیں،مناجات ،اذانیں ہو رہی تھیں مگر ابرِ رحمت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ آپ بمبئی میونسپل کارپوریشن میں پیشئہ در س و تدریس سے منسلک تھے۔ اسکول کی تعطیلات ختم ہو رہی تھیں۔ آپ بمبئی لوٹنے کی تیاری کر رہے تھے ۔آپ نے جب رختِ سفر باندھا تو والدہ محترمہ نے برسات نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کی پریشانیوں کا ذکر چھیڑا۔آپ والدہ صاحبہ کا اشارہ سمجھ گئے ۔ آپ نے اپنی پرانی کمبل کا ایک ٹکڑا صحن میں ایک پیڑ کی ٹہنی سے باندھ دیا اور برکت اﷲ بھائی صاحب سے فر ما یا کہ اگر بارش نہ رکے تو اس ٹکڑے کو کھول دینا ۔ اس کام سے فراغت کے بعد آپ گھرسے رخصت ہو کر اسٹیشن ہی پہنچے تھے کہ موسلا دھار برسات نا صرف گورکھپور میں بلکہ پوری ریاست میں شروع ہو گئی ۔ پورا علاقہ جل تھل ہو گیا۔دو دن تک یہی حال رہا۔آخر آپ کے کمبل کا وہ مبارک ٹکڑا کھول دیا گیا تب کہیں جا کر بارش تھمی۔ اﷲ کے راز داروں کے غیبی کارنامے اﷲ ہی بہتر جانتا ہے یہ حضرات! پل میں دنیا کو سیراب کر دیتے ہیں اور کسی کوخبر بھی نہیں ہو نے دیتے۔ |
جناب لطیف صاحب جو حضور کے ایک مرید ہیں بیان فرماتے ہیں ۔ ایک دور میں مالی طور پر میں بہت پریشان تھا اور اسی فکروتردد میں دربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ میری پریشانی پرمطلع ہو کر گویا ہوئے۔"لطیف کیا بات ہے روزی کی پریشانی ہے ۔ فکر نہ کرو۔ میں ہوں نا"۔ اور اس کے بعد از راہ ِ لطفِ طبعی فرمایا۔"تمہارا بنگلہ ہوگا۔اجی دوکان ہوگی اور گاڑی ہوگی۔گاڑی۔۔۔فیاٹ گاڑی۔تسلی کے لئے اس کا نمبر بھی بتادوں"۔ اور آپ نے جو نمبر بتایا وہ میں نے نوٹ کر لیا۔ ایم۔ایچ۔۳۸۸۳۔اور اس کے بعد لطیف صاحب فرماتے ہیں۔مجھے مزید کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بیشتر پیر بھائی بہن جانتے ہیں کہ میرے پاس اسی نمبر کی فیاٹ گاڑی آئی۔ کاروبار کے لئے کرلا میں جگہ ملی اور آپ کے حسبِ فرمان باتیں پوری ہوئیں۔ زندگی بڑے سکون سے گذر رہی تھی کہ پھر گردشِ ایام نے رخ بدلا اور ایک وقت مجھ پر ایسا بھی گذرا کہ کاروبارمیں ۷ (ساتھ) لاکھ روپیوں کا قرض ہوگیا۔ (میں فلم انڈسٹری میں اسٹیج وغیرہ کے لئے لکڑی یعنی ٹمبر مال سپلائی کرتا تھا) اور اس قرض کی ادائیگی کی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ سامنے والی پارٹیاں جنہیں مال دیا گیا تھا دیوالیہ ہوگئیں تھیں مگر مجھے مال دینے والی کمپنیوں کو قرضہ ادا کرنا تھا۔ اس دور میں ساتھ لاکھ بہت بڑی رقم تھی۔ روز علی الصبح سرکار کی خدمت میں حاضر ہوتامگر وہاں کوئی سنوائی نہیں تھی۔ آخر ایک روز ضبط کا بند ٹوٹ گیا اور میں آپ کے پائے مبارک پکڑ کر بلبلا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا مجھے اس طرح شکستہ دیکھ کر رحمت جوش میں آئی اور آپ نے اپنے بٹوے میں سے ایک روپیہ کا سکہ نکال کر مجھے دیتے ہوئے فرمایا"جاﺅ بینک میں جمع کردو، سب ٹھیک ہو جائے گا"۔آپ کے حسب حکم میں نے فی الفورہ وہ ایک روپیہ کا سکہ ہی جمع کر دیا۔ اب خدا کی قدرت دیکھئے۔ ایک ہی ماہ میں حالات بدل گئے۔ سال بھر میں میرا پورا قرضہ ادا ہوگیا اور آج حالات کافی بہتر ہیں۔ |
بسنتی مچھلی والی حضور کی بڑی سادہ لوح مرید ہ ہیں معلوم ہوتا ہے دنیا کا مکر و فریب انہیں چھوکر بھی نہیں گذرا ہے بسنتی بتاتی ہیں یوں تو زندگی کے ہر مقام اور ہر قدم پر حضور نے رہبری و دستگیری فر مائی ہے مگر سب سے چھوٹی بیٹی ” سُمن“ کو نئی زندگی عطا کرنے کا واقعہ ان کے خاندان کے لئے نہایت ہی اہم ہے جسے وہ کبھی نہیں بھول سکتیں۔ |
ایسی بےشمار کراماتیں ہیں جو حضور کی ذاتِ مبارکہ سے ظاہر ہوئیں ہیں۔ ان تمام کراماتوں کا ذکر ویب سائٹ پر مشکل ہے۔ ان میں سے چند کراماتوں کا ذکر حضور کی ذاتِ مبارکہ پر لکھی کتاب "آئنۂ رب" میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔ خواہش مند حاضرین ٹرسٹ کے کسی بھی برانچ سے یہ کتاب حاصل کر سکتے ہیں۔ برانچ ٹرسٹوں کے پتے کونٹیک پیج میں درج ہے۔ |